Wednesday, May 28, 2014

Muzaffarabad and Muzaffarabadians

اگراپنے حقو ق کی بات کرنا جرم ہے تو میں بحیثیت مظفرآبادی یہ جرم ہزار بار کروں گا اور مرتے دم تک کرتا رہوں گا۔ میں ریاست جموں و کشمیرکے مکمل تشخص کا قائل ہوں۔ میں ریاست کے حقوق کی بھی بات کروں گا۔ لیکن اسکا آغار میں انپے گھر یعنی مظفرآباد کے حقو ق کا مطالبہ کروں گا، اسکے بعد میں دوسرے اضلاع کے حقوق کا مطالبہ بھی میرے فرائض میں شامل ہے۔ اگر علاقائی تعصب کی بات کی جائے تو مظفرآباد سے زیادہ کسی کو بھی دل کھلا اور روادار نہیں ہوگا۔ یہاں دوسرے اضلاع کے لوگ آ کر ملازمیتں حاصل کر کے پھر ریٹائرمنٹ کے بعد اسی شہر کے اپر چھتر ہاوسنگ سکیم میں کوٹھیوں میں رہائش پزیر ہیں، اس سے کیا بڑی بات ہوگی۔ مظفرآباد کو دانستہ طور پر تعمیر ترقی ک تعلیم ، روزگار اور زندگی کے ہر میدان میں دانستہ اور مکمل طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ حکمران جماعت پیپلز پارٹی بھی نہیں چاہتی کے اس شہر سے اسکو بھی کوئی سیٹ ملے۔ کیونکہ اگر سیٹ ملی تو پھر س شہر کی تعمیر ترقی ہوگی۔ اس لئے وہ چاہتے ہی نہیں کہ انہیں اس شہر سے کامیابی ملے۔ رہی تعصب کی بات تو عثمان عتیق نے دوبار اس شہر سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔ اور ہم نے اس فعل کو جمہوری طور پر قبول کیا ہے۔ حالیہ دنوں وزیر چوہدری یٰسین نے جو سلوک مظفرآباد کے وزیر چوہدری لطیف اکبر کے ساتھ کیا ہے وہ بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہر سمت ہر میدان میں مظفرآباد کے ساتھ تعصب روا رکھا جارہا ے۔ ذرای یونیورسٹی کی تقرریوں پر نظر دو ڑائیں مظفرآباد کو 100فیصدنظر انداز کیا گیا ہے ملعون وائس چانسلر کو یہ کام خاص طور پر صدر ریاست نے سپرد کیا تھا۔فرض کرو کہ اگر ہمارے مظفرآباد کا کوئی فر د دھیر کوٹ یا راولاکوٹ سے انتخابات کے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو شاید انتخابات میں ہمیں نتیجہ کے طور پراسکی لاش تحفے میں ملے گی۔ اس سے بڑی کیا رواداری ہوگی ۔ اگر اپنے غاصبوں سے اپنے حقوق مانگنا تعصب ہے تو یہ تعصب میں مرتے دم تک کروں گا


By : Engr Waseem Lone

No comments:

Post a Comment